FaZi DaR

FaZi DaR

کپڑوں،جوتوں ، اور بناؤ سنگھار سے زیادہ اپنے مطالعہ، شعور اور گفتگو پر کام کریں۔۔کوئی بھی دس سیکنڈ آپ کے سنگھار سے متاثر ہوسکتا ہے ۔۔اس کے بعد اپکو گفتگو ہی کرنی ہوتی ہے

Friday, June 30, 2023

بچپن کی عید

June 30, 2023 0
بچپن کی عید
سن زندگی
تجھے یاد ہوگا جب ہم چھوٹے ہوا کرتے تھے تب عید بہت مزے میں گزرا کرتی تھی. تب چاند بھی اماں ابا دیکھ لیتے تھے کوئی کمیٹی عید کا فیصلہ نہیں کیا کرتی تھی. کبھی کبھی تو ابا جی کی گود چڑھ کے خود بھی چاند دیکھا کرتے تھے تب عید کا مزہ دوبالا ہو جاتا تھا. ماں ایک تھالی میں کھلی مہندی بھگو کے تنکے سے لگا دیا کرتیں تھیں اور ساری رات خوشی کے مارے نیند نہیں آتی تھی کہ کل عید ہے. صبح ماں سے بھی پہلے اٹھ جایا کرتے تھے اور نیا سوٹ پہن کر خود کو ہواؤں میں محسوس کیا کرتے تھے سارا دن گزر جاتا نہ ہماری خوشی کم ہوتی نہ عید کا مزہ.. دوست سارا سارا دن گاؤں کی گلیوں میں کھیلتے رہتے جب بھوک لگتی تو کسی بھی دوست رشتے دار کے گھر جا کے کھانا کھا لیتے....
اب ہماری عیدوں کو شاید نظر لگ گئی ہے تجھے ہماری وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں برداشت نہیں ناں ہوئیں؟ اب ہم چاند تک نہیں دیکھ سکتے. کہیں چاند نظر آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہوتے اور جب ہم انتظار کر کر کے تھک کے سو جاتے ہیں تو کمیٹی والے اعلان کر دیتے ہیں کہ کل عید ہے. ہم سوئے جاگے یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ عید کی مبارک دیں یا کام سمیٹیں؟ یوں بھی ہوتا ہے کہ عید سے ایک دن پہلے کوئی حادثہ ہوتا ہے اور ہمارے پیارے اس حادثے کی نذر ہو جاتے ہیں. پھر ہمیں نہ عید کا اعلان اچھا لگتا ہے نہ ہمارے زخموں پہ نمک کا پھاہا رکھتا ہمارامسیحا... ساری رات بے کلی میں گزرتی ہے نیند آتی ہے پر نہیں آتی. صبح ہوتی ہے ہم سب سے پہلے اٹھ جاتے ہیں مبارکوں کے پیغامات اندر کہیں سناٹا پھیلانے لگتے ہیں اور ہمیں نیا سوٹ پہنتے ہوئے شرمندگی محسوس ہوتی ہے. یہ سوچ ہی وحشت زدہ کر دیتی ہے کہ آج سارا دن مسکرانا پڑے گا. عید کا دن دل کو عام دنوں سے زیادہ بوجھل کر دیتا ہے اور ہم یہ دن جلدی گزر جانے کی دعا مانگتے رہتے ہیں. دل کا بوجھ بانٹنے کو اب وہ دوست نہیں ہوتے جو پچھلی رات کا پارٹی نہ دینے پر ہو چکا جھگڑا بھلا کر ہمیں گلے لگا لیتے تھے. ہماری بچیاں اب گاؤں کی گلیوں میں نہیں کھیلنے جاتیں جنہیں عورت کی عزت کامطلب بھی نہیں پتا انکی عزت کو خطرہ جو ہوتا ہے. اب گاؤں کا ہر گھر بھی اپنا نہیں رہا.
زندگی... چل آج ایک سودا کرلے مجھ سے.. بتا مجھے میری بچپن والی عیدوں کی خوشی کیسے لوٹائے گی؟؟ ایسا کیا دوں تجھے کہ تو میرے دل کو وہی سکون وہی جوش اور جذبہ واپس کردے.... تیری تو عادت ہے ناں کچھ لئے بنا کچھ نہیں دیتی... بنا کچھ دیے تجھ سے اپنی پرانی خوشیاں مانگوں گی تو ہنسے گی میرے پہ.. تجھے جانتا ہوں میں.... تجھ سے ظالم کوئی میں نے آج تک دیکھا ہی نہیں.. تجھے صرف لینا آتا ہے... خوشی, سکون, راحت, یہاں تک کہ زندگی بھی... اتنا کچھ لینے کے بعد تو دیتی کیا ہے؟؟ صرف دکھ, بےسکونی اور بے چینی.... میرے پاس تجھے دینے کے لئے میرا سب سے قیمتی اثاثہ میرا فن ہے. اگر میں تجھے یہ دے دوں تو کیا تو مجھے میری عیدوں کی خوشی لوٹا دے گی؟؟ کیا مجھے عید کا سوٹ پہنتے ہوئے وہی خوشی ہوا کرے گی ؟؟ کیا مجھے میرے وہ دوست واپس کرے گی جو عید کی خوشی میں جھگڑا بھول جاتے تھے ؟؟ بتا یہ سودا کرے گی مجھ سے کہ اگر میں تجھے اپنا یہ فن دے دوں تو گاؤں کے سارے گھر میرے ہوں گے.. ؟
ᶠ ᵃ ᶻ ⁱ

Thursday, May 18, 2023

بد گمانیاں

May 18, 2023 0
بد گمانیاں
زندگی میں ہی رشتوں کی قدر کریں
ورنہ تصویریں کہاں کمی پوری کرتی ہیں ۔۔
اپنے سے منسلک رشتوں کا حال احوال اور خیریت دریافت کرتے رہا کریں یہ نہ ہو بدگمانی انہیں زنگ آلود کردے ۔۔
آج کل رشتوں کو سب سے زیادہ کمزور کرنے کی بنیادی وجہ بدگمانی ہے
خود ہی سوال کے خود ہی جواب کے چکر میں ہم کبھی کبھی قیمتی رشتوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور بعد میں پچھتاوا ہی بچ جاتا ہے ۔۔
اس لئے دلوں میں شفافیت اور رشتوں میں مخلصی اپناٸیں ۔۔۔
اگر کبھی رشتوں میں اونچ نیچ ہوجاۓ تو درگزر کردیں ۔۔ کبھی منا لیا کریں اور کبھی مان لیا کریں ۔۔
اور سب سے قیمتی تحفہ جو آپ دے سکتے ہیں وہ ہے آپ کا وقت ۔۔ 
اللہﷻ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے 
گمان سے بچو بے شک بعض گمان گناہ ہے ۔
یہ رشتوں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے اور ندامت و خسارا باقی رہ جاتا ہے ۔۔ 
آج ہم ” ہیں “ نجانے کب ” تھے “ ہو جاٸیں ۔۔ 
بعد میں یادوں کو سینے سے لگا کر آہیں بھرنے سے بہتر ہم اپنا آج ضاٸع نہ کریں ۔۔ 
خوش رہیں ۔۔ 
 مسکراہٹیں بکھیریں ۔۔ 
 اور غموں اور پریشانیوں کو گڈ باۓ بولیں 
اس سے پہلے کہ ایک ہاتھ سے رشتے سرک جاٸیں کچھ اچھی یادوں سے اپنی جھولیاں بھرلیں ۔۔

Law of attraction

May 18, 2023 0
Law of attraction
Law of attraction 
سوچ کا حقیقت میں بدلنا۔
آپ جو سوچ رہے ہیں وہ حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ اگر آپ اسے بار بار سوچیں، شدت سے سوچیں تو وہ مخصوص سوچ آپ کے اندر ایک مقناطیسیت پیدا کردیتی ہے۔ وہ مقناطیسیت حقیقی دنیا سے آپ کی سوچی جانے والی چیز کو آپ کی طرف کھینچتی ہے۔ آپ کے قریب کرتی ہے۔attract کرتی ہے۔اس قانون کو law of attraction کہتے ہیں۔

انسانی ذہن میں ایک دن میں قریب ساٹھ ہزار سوچیں آتی ہیں۔ جن میں سے جس سوچ کو انسان اپنی چاہت بنا کر باربار سوچنے لگتا ہے۔ وہ حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ یہاں ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ انسان جس چیز کی چاہت نہیں کرتا، لیکن مسلسل اسے سوچتا رہتا ہے کہ میری زندگی میں یہ انسان یہ چیز یا یہ واقعہ نہیں ہونا چاہئے۔ تو اس کے باربار سوچنے اور شدت سے سوچنے کی وجہ سے اس کی ان چاہی سوچ بھی حقیقت میں بدل جاتی ہے۔

کیونکہ law of attraction کا اس چیز سے کوئی لینا دینا نہیں کہ جو آپ سوچ رہے ہیں اسے پانے کیلئے سوچ رہے ہیں یا اس سے خوفزدہ ہوکر۔ وہ تو بس آپ کی سوچی ہوئی چیز کو آپ کی زندگی میں شامل کرنے کے لیے ہر وقت ایکٹیو رہتا ہے۔

اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بدگمانیاں پالنے اور غلط سوچ رکھنے والے کی زندگی بےشمار پریشانیوں سے گھری ہوتی ہے۔اس کی مسلسل ناشکریاں اسکی زندگی کا سارا سکون تباہ کردیتی ہیں۔اسی لیے کہتے ہیں کہ ہمیشہ اچھا اور پازیٹیو سوچیں۔
نیگیٹو نہ سوچیں۔
بدگمانیوں سے بچیں۔

انسان کے لیے وہی ہے جس کی وہ چاہت کرتا ہے۔
آپ بھی law of attraction کو استعمال کرکے اپنی چاہت کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔
حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ تم الله سے جیسا گمان رکھو گے اسے ویسا ہی پاؤ گے۔اس لیے کہاجاتا ہے کہ الله سے ہمیشہ اچھا گمان رکھو۔

الشمس تبریز نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ہم جو بھی بولتے ہیں وہ الفاظ ضائع نہیں ہوتے۔ بلکہ مقررہ مدت کے بعد لوٹ کر واپس ہماری ہی طرف آتے ہیں۔ اور اسی کو بنیاد بنا کر وہ مزید فرماتے ہیں کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ کسی انسان کی ذاتی خوشی معاشرے کے اجتماعی خوشی بن جائے گی اور اسی طرح کسی انسان کا انفرادی غم پورے معاشرے کا غم بن جائے گا۔یعنی کسی کی مثبت یا منفی سوچ پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے۔

واصف علی واصف نے اپنی کتاب کرن کرن سورج میں بھی لا آف اٹریکشن کا ذکر کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ قانون قدرت ہے کہ جو بانٹو گے وہی ملے گا،اسی کی فراوانی ہوگی۔یعنی اگر آپ 
دولت چاہتے ہیں تو اپنی دولت بانٹیں۔
عزت چاہتے ہیں تو سب کو عزت دیں۔
علم میں اضافہ چاہتے ہیں تو لوگوں میں علم بانٹیں۔

مطلب یہ اٹریکشن کا قانون کوئی نیا نہیں ہے بلکہ ہمارے دین میں مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں اس کا زکر موجود ہے اور مختلف لوگوں نے اسکو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ہم چاہیں نہ چاہیں لیکن یہ قانون ہر وقت کام کررہا ہوتا ہے 

آپ ہر چیز کو اپنی طرف خود کھینچتے ہیں۔آپ کے حالات، نوکری، شریک حیات دولت یا غربت سب آپ کی سوچ کے مطابق ہی آپ کو ملا ہوتا ہے۔ یعنی جو بھی آپ سوچتے ہیں قدرت آپ کو وہی دیتی ہے۔

جب آپ اس قانون کو جان جاتے ہیں، مان جاتے ہیں تو یہ قانون فطرت آپ کی بہت سی الجھی گتھیاں بھی سلجھا دیتا ہے۔مثال کے طور پر میں سوچا کرتی تھی کہ ایک انسان الله سے مانگتا ہے ایک انسان کسی بت کے آگے فریاد لے کرجاتا ہے۔کوئی پتھر کے سامنے اپنی حاجات بیان کرتا ہے اور کوئی کسی سے بھی نہیں مانگتا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب کی ضروریات، خواہشات پوری ہونے کے علاوہ ان کی دعائیں بھی قبول ہورہی ہیں یہ بھلا کیسے؟؟

حالانکہ میرے خیال میں تو صرف الله سے مانگنے والے کی دعا قبول ہونی چاہئے۔لیکن اس قانون کو سمجھنے کے بعد میں نے جانا کہ ان سب کو الله ان کی سوچ اور یقین کے مطابق عطا کردیتا ہے۔جو انسان جس کو بھی رب مان کراس کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے الله اسے اسی کے در سے نواز دیتا ہے۔

اب میری طرح آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ الله ایسا کیوں کرتا ہے؟ انہیں نامراد رکھ کر اپنے یکتا ہونے کا یقین کیوں نہیں دلاتا تو میری عقل یہ کہتی ہے کہ الله کسی کو مجبور کر کے اپنی طرف نہیں لانا چاہتا بلکہ الله تو انسان کو غوروفکر کرکے اسکی مکمل رضامندی کے ساتھ ہدایت کے راستے پر لاتا ہے۔اللہ پتھر کے زریعے لوگوں کی مرادیں پوری کروا دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ خود سوچیں کہ بھلا یہ پتھر ہمیں کیسے کچھ دے سکتا ہے ؟ 
یہ جو ملا ہے یہ کسی اور عظیم ذات کی عطا ہے۔لیکن جن کے اندر یہ سوچ پیدا نہیں ہوتی الله ان کو ان کی سوچ کے مطابق بھٹکتا رہنے دیتا ہے۔ہدایت نہیں دیتا۔
یعنی جو ہدایت نہیں چاہتا وہ ہدایت کو اٹریکٹ بھی نہیں کرتا۔۔۔۔

اس لیے ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ اچھا اور مثبت سوچیں۔منفی سوچ سے بچیں۔تاکہ خوشی اور خوشحالی کو اپنی جانب اٹریکٹ کرسکیں۔
اللہ ہمیں اچھا سوچنے کی توفیق دے آمین۔
خوش رہیں۔خوشیاں بانٹیں۔

Monday, May 1, 2023

غلط فہمیاں

May 01, 2023 0
غلط فہمیاں
اگر آپ 100 کالی چیونٹیاں اور 100 سرخ چیونٹیاں پکڑیں اور ان کو شیشے کے برتن میں ڈال دیں، کچھ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر آپ پیالے کو اٹھا کر اسے زور سے ہلائیں تو چیونٹیاں ایک دوسرے کو مارنے لگیں گی۔

بھلا کیوں؟
لال چیونٹیوں نے سمجھا، کالی دشمن ہیں۔ جبکہ کالی چیونٹیاں سرخ کو دشمن سمجھنے لگیں۔ جبکہ اصل دشمن وہ ہے، جس نے برتن کو ہلایا۔
اس سے پہلے کہ ہم آپس میں اختلاف کریں اور لڑیں، ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیئے۔
کس نے برتن ہلایا؟
خاندان ٹوٹ پھوٹ گئے اور دشمن بن گئے، دوست دور ہو گئے اور بھائی آپس میں جھگڑنے لگے۔
وجہ؟
کیونکہ کسی نے غیبت، چغلی و بہتان باندھ کر اور جھوٹ بول کر برتن ِہلا دیا اور ہم آپس میں لڑنے لگے۔
اپنے پیاروں کا خیال رکھیں اور متعصبوں کو اپنے درمیان سے قربت محبت اور ہم آہنگی کے برتن کو ہلانے کی اجازت نہ دیں۔
سُنی سنائی بات سے خاندان، دوستی، محبت تباہ نہ کریں۔ جب تک کسی سے براہِ راست پوچھ نہ لیں، دل میں دشمنی نہ بنائیں۔۔۔

Sunday, April 30, 2023

Happy Labor Day"

April 30, 2023 0
Happy Labor Day"
کونسا لیبر ڈے ؟
کیسی چھٹی ؟
میرے ملک کے غریب مزدور تو آج بھی آپ کو روزگار کے اڈوں پر ملیں گے۔ 
کیونکر چھٹی کرکے گھر بیٹھ جائیں ؟
دیہاڑی نہیں کریں گے تو شام کو چولہا کیسے چلائیں گے ؟
کون مٹائے گا ان کے بچوں کی بھوک ؟
اسکولوں، کالجوں ، دفاتر میں سب کو چھٹی ہو گی اک صرف مزدور کو چھٹی نہ ہو گی جس کے نام پہ یہ "لیبر ڈے" منایا جارہا ہے۔
اگر حقیقی معنوں میں مزدوروں کا عالمی دن منانا ہی ہے تو جاؤ اڈے پہ مزدوری کے انتظار میں بیٹھے مزدور کو ایک دن کی اجرت دے کر گھر بھیجو اور کہو جاؤ آج تمہارا دن ہے آرام کرو۔
پھر بھلے شئیر کرنا "Happy Labor Day"